255

خواتین یونیورسٹی کا قیام ناگزیر ہے

اس بات میں کوئی شک نہیں کے کوئی بھی معاشرہ عورت کی تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔ کائنات میں رنگ عورت کے دم سے ہے۔ تعلیم کا حصول مرد اور عورت کے لیے يكساں ضروری ہے اور عورت کا بھی تعلیم پر اتنا ہی حق ہے جتنا مرد کا۔ مرد کی تعلیم صرف ایک فرد سے وابستہ ہے جب کہ عورت کی تعلیم آنے والی نسلوں کو سنوار دیتی ہے۔ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ پر ایک ویڈیو موضوع بحث بنی ہوئی ہے جس پر لوگ اپنی اپنی ارا کا اظہار کر رہے ہیں۔آج کل کلچرل فیسٹیول اور ہیلدی ایکٹیویٹیز کے نام پہ نہ جانے کس کلچر کو پرموٹ کیا جارہا ہے۔ اس ویڈیو سے قبل کئی یونیورسٹیز اور کالجز کی مخلوط ڈانس ویڈیوز سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کی زینت بنی ہیں۔ہمارا اسلامی معاشرے اس طرح کی ایکٹیویٹیز کا متحمل نہ ہو سکتا ہے۔ یہ ایک اسلامی ریاست ہے اور اسلام کے نام پر لی گئی ہے، نہ جانے کون سا طبقہ اس کو مغربی معاشرے کی طرف دھکیل رہا ہے۔ یہ ویڈیو یونیورسٹی آف میانوالی کی منعقدہ ایک تقریب کی ہے جس میں بظاہر ایک خاتون طالبعلم بظاہر تو حجاب پہنے نظر آ رہی ہے مگر اس حجاب کی اڑ میں جو بے حجابی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے وہ قابل بیان نہ ہے۔ اور معذرت کے ساتھ جو اس ویڈیو میں گانا چنا گیا جس میں بھاگ کر محبوب سے ملنے کو بیان کیا جارہا ہے۔ کیا میانوالی یونیورسٹی کا قیام اس لئے عمل میں لایا گیا کہ لڑکیوں کو دروازے اور کھڑکیاں پھلانگ کر بھاگنےکے طریقہ سکھائے جائیں یہ کیسی درسگاہ ہے جہاں پر اساتذہ اور طالب علم بہت خوشی اور خاموشی سے گانے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ میانوالی کی اپنی ایک تاریخ اور اپنی ہی روایات ہیں یہاں پہلے ہی خواتین کی تعلیم مشکل نہیں بلکہ تقریباً ناممکن ہے لیکن اس طرح کی سرگرمیوں کے بعد تو شاید خواتین کی تعلیم پر والدین کی طرف سے پابندی ہی لگ جائے۔ ہمارا کلچر اتنی بے حجابی کا متحمل نہ ہے پہلے ہی والدین بڑی مشکل سے اپنی بچیوں کو یونیورسٹی اور کالج میں پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں اور اسی غیر اخلاقی سرگرمیوں کی وجہ کافی خواتین تعلیم کے زیور سے محروم رہ جاتی ہیں۔ اس سے پہلے بھی میں اپنے مختلف آرٹیکلز میں اس بات پر زور دیتی رہی ہوں کہ میانوالی جیسے علاقے کے لئے خواتین یونیورسٹی بہت ضروری ہے اور شاید وقت کی ضرورت بھی ہے۔ سب سے پہلے تو اس بات کا تعین ہونا ضروری ہے اس طرح کی ویڈیو سوشل میڈیا کا حصہ کیوں اور کیسے بنی؟ کون سے ایسے عوامل و عناصر تھے جنہوں نے اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پر وائرل کر کے ایک ہیجان کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ معذرت کے ساتھ جس نے بھی اس ویڈیو کو سوشل میڈیا کا حصہ بنایا ہے وہ کسی قدر بھی معافی کا حقدار نہ ہے یہ ویڈیو اگر بنانا مقصود ہی تھی تو اس ویڈیو کو انتظامیہ تک پہنچایا جاتا یا یونیورسٹی کے چانسلر و ذمہ داران تک پہنچا کر اس کی اصلاح کی کوشش کی جاتی نہ کہ اس ویڈیو کو اپلوڈ کرکے کوئی سیاسی یا کوئی اور پوائنٹ سکورنگ کی جاتی۔ یونیورسٹی انتظامیہ اور اساتذہ کرام جو کہ ایک یونیورسٹی کا ستون ہوتے ہیں کیا وہ گھوٹا پی کر سو رہے تھے کہ ان کی ناک کے نیچے یہ سب لغویات ہوتی رہی۔ اس طرح کا پروگرام اگر کنڈکٹ کروانا ہی تھا تو موبائل فون کے ذریعے یا کیمرے کے ذریعے ویڈیو بنانے پر پابندی ہونی چاہیے تھی دوسرا اسطرح شاعری والے گانے کے علاوہ کوئی نعت، ملی نغمہ یا کوئی بھی دیگر اصلاحی شاعری کا انتخاب بھی کیا جاسکتا تھا۔ اس ویڈیو کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے سے دو طرح کے نقصانات ہو سکتے ہیں ایک تو خاتون طالب علم کا مستقبل داؤ پر لگا دیا گیا دوسرا اعلی تعلیم حاصل کرنے کا شوق رکھنے والی خواتین کی راہ میں رکاوٹ حائل کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔ اور ان کا یونیورسٹی میں تعلیم کے حصول کاخواب چکنا چور ہو سکتا ہے۔ حجاب کریں یا نہ کریں وہ آپ کا ایک ذاتی فعل اور اللہ اور آپ کے درمیان معاملہ ہے لیکن حجاب میں ایسی بے حجابی کسی کو بھی کسی طور پر قبول نہ ہے۔ عزت اور احترام کا مقام حجاب کرنے یا نہ کرنے سے نہیں ملتا بلکہ اپنے اقدار، کردار، اخلاق اور اپنی روایات کو اپنے ساتھ رکھنے سے اور اس پر عمل کرنے سے ملتا ہے۔ آج کل حجاب صرف دکھاوے کے لیے رہ گیا ہے اس کا اصل مقصد فوت ہو چکا ہے۔ جو خواتین اسلامی اقدار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے حجاب کو اپنی زینت بناتی ہیں، ان کے لیے بھی مشکلات کا سبب بنتی ہیں۔ معذرت کے ساتھ، جب آپ حجاب میں اس طرح کی روایات کو اجاگر کریں گے تو جو بہنیں بیٹیاں گھر بیٹھی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کی خواہاں ہیں ان تک کیا پیغام پہنچے گا؟
معذرت کے ساتھ اس ویڈیو پر کوئی بھی سیاست بازی نہ کی جائے یہ ایک حساس معاملہ ہے جس پر مل بیٹھ کر تمام اسٹیک ہولڈرز ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیں تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات/سرگرمیوں سے بچا جا سکے۔ میں پہلے بھی کئی بار اس بات کو وقتا فوقتا اجاگر کرتی رہتی ہوں کہ میانوالی میں خواتین یونیورسٹی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ارباب اختیار سے بھی گزارش ہے کہ وہ اس بابت تجاویز وزیراعظم پاکستان تک پہنچائیں نہ کہ اس طرح کی ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنا کر اس پر کوئی سیاسی بیان بازی کریں۔ اس معاملے پر ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو اس واقعے کی اور اس ویڈیو کی انکوائری کر رہی ہے پر افسوس کے ساتھ انکوائری بھی وہی کر رہے ہیں جو اس پروگرام کو کنڈکٹ کروانے میں کسی نہ کسی طرح شامل ہیں اگر وہ شامل نہیں بھی ہیں تو کم از کم ان کے علم میں اس طرح کی تقریب کا انعقاد ضرور ہوگا۔ انکوائری کسی غیر جانب دار ادارے یا غیر جانب دار پینل کے ذریعے کروائی جائے۔ انکوائری کمیٹی اس وقت ہی تشکیل دی جاتی ہیں جب معاملے کو دبانا ہوتا ہے۔ اس پروگرام کو ترتیب دینے والی ایڈمنسٹریشن اور پروفیسر حضرات ہی ہیں جنہوں نے بغیر کسی سکروٹنی کے اس طرح کے گانے کو پروگرام میں شامل کیا یا ہونے دیا۔ یہ تو انتظامیہ اور پروفیسر اور دیگر افراد وہ جو اس پروگرام سے وابستہ تھے کا فرض بنتا تھا کہ اس طرح کے گانے کو سلیکٹ کرنے سے پہلے سکرٹنایز کیا جاتا مگر ایسا کچھ نہ کیا گیا۔ ہر پروگرام کو کنڈکٹ کرنے سے پہلے ایک ریہرسل کی جاتی ہے۔ اس پروگرام کو ترتیب دیتے وقت اس گانے پر کوئی اعتراض نہ کرکے ایک نہ تھمنے والا اور نہ رکنے والا موضوع کو زیر بحث بنا دیا ہے۔ اساتذہ کرام کسی بھی یونیورسٹی، کالج اور اسکول کا اہم ترین رکن و ستون ہوتے ہیں اور یہی اساتذہ کرام طالب علموں کے آئیڈیلز ہوتے ہیں پر افسوس کہ اساتذہ کرام معاشرے کو کسی اور ڈگر ہاکنے کی کوشیش کر رہے ہیں۔ اس چھوٹی سی کوتاہی و غفلت نے بڑے ایشو کو جنم دے دیا ہے۔ پہلے ہی ہمارا علاقہ غیرت کے نام پر قتل میں مشہور ہے اس چھوٹی سی غفلت کی وجہ سے نہ جانے کتنی زندگیاں یا کم از کم اس لڑکی کی زندگی جو اس ویڈیو میں نظر آرہی ہے کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ میانوالی کی اپنی روایات اور اپنی ہی اقدار ہیں اسی وجہ سے کافی لوگ اپنی بہنوں بیٹیوں کو اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بڑے شہروں کا رخ نہیں کرتے۔ اس دور حکومت میں اگر میانوالی کو کوئی یونیورسٹی مل ہی گئی تھی تو اس میں اس طرح کی سرگرمیوں کا انعقاد کر کے اس یونیورسٹی کی ساکھ کو خراب نہیں کرنا چاہیے تھا۔ میانوالی جیسے علاقے میں مخلوط تعلیم اور وہ بھی اس طرح کی سرگرمیوں کے ساتھ کسی طور بھی اس طرح اس علاقے کے مکینوں کو قبول نہ ہے۔
سوشل میڈیا پر کیے جانے والے تبصرے اس بات کی غمازی ہیں کے لوگ میانوالی میں تعلیم کی آڑ میں ایسی سرگرمیاں کو کسی صورت بھی قبول نہیں کر سکتے ہیں۔ میری انتظامیہ اور ارباب اختیار سے یہ درخواست ہے کہ جب تک میانوالی میں خواتین یونیورسٹی کا قیام عمل میں نہیں آتا تب تک میانوالی یونیورسٹی میں خواتین کے لئے علیحدہ نظام تعلیم کا بندوبست کیا جائے اور مخلوط قسم کے پروگرام کنڈکٹ کروانے سے گریز کیا جائے۔ ہماری بہنیں بیٹیاں جو صرف مخلوط تعلیم کی وجہ سے تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں برائے مہربانی ان کے لئے مزید مشکلات اور سختیاں پیدا نہ کریں۔ میری والدین سے بھی درخواست ہے کہ صرف کیا چندشر پسند عناصر کی وجہ سے اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے زیور سے محروم نہ رکھیں۔ اس طرح کے واقعات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا بعض اوقات کسی مخصوص طبقہ کی وجہ سے بھی ہو سکتے ہیں جو اس علاقے میں خواتین کی تعلیم کو کسی طور بھی درست نہ سمجھتے ہیں۔ حجاب میں رہ کر بے حجابی کسی طور بھی ہمارے معاشرے کو قبول نہ ہے۔ میری اس خاتون طالب علم سےجو پروگرام میں گانا گا رہی ہے اور دیگر تمام خواتین طالب علموں سے بھی استدعا ہے کہ خدارا اپنے آپ کو اپنے علاقے کی روایات اور اقدار تک ہی محدود رکھیں تاکہ آنے والی طالبات کے لئے تعلیم کی راہ ہموار کی جا سکے۔ میرا مقصد کسی کی تضحیک یا تنقید نہ ہے بلکہ صرف اصلاح ہے۔ وہ خواتین جو اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی خواہش مند ہیں ان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی بجائے آسانیاں پیدا کی جائیں تاکہ کے ضلع کی ترقی میں خواتین اپنا کلیدی کردار ادا کر سکیں۔ میری یونیورسٹی انتظامیہ سے بھی درخواست ہے کہ کم از کم خواتین کو اس طرح کے پروگراموں میں شامل کرتے وقت اس پروگرام کی مکمل اسکروٹنی اپنی زیر نگرانی کریں اور ایسے پروگرام ترتیب دیے جائیں جس سے معاشرے کی اصلاح کی جا سکے اور میانوالی جیسے علاقے کی خواتین کی تعلیم کا حصول آسان سے آسان تر ہو جائے۔ میرے الفاظ شاید سخت اور ناگوار گزریں لیکن میرا مقصد صرف آنے والی بچیوں، بہنوں بیٹیوں کی تعلیم کے حصول کی راہ میں مشکلات اور مسائل کو اجاگر کر کے ان کو دور کرنا ہے نہ کہ کسی کی ذات یا کسی کی انا کو ٹھیس پہنچانا ہے۔ اللہ پاک سب کا حامی و ناصر ہو

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں


Notice: Undefined index: HTTP_CLIENT_IP in /home/thainewsi/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 296

Notice: Undefined index: HTTP_X_FORWARDED_FOR in /home/thainewsi/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 298

Notice: Undefined index: HTTP_X_FORWARDED in /home/thainewsi/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 300

Notice: Undefined index: HTTP_FORWARDED_FOR in /home/thainewsi/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 302

Notice: Undefined index: HTTP_FORWARDED in /home/thainewsi/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 304

Notice: compact(): Undefined variable: limits in /home/thainewsi/public_html/wp-includes/class-wp-comment-query.php on line 860

Notice: compact(): Undefined variable: groupby in /home/thainewsi/public_html/wp-includes/class-wp-comment-query.php on line 860

Notice: Undefined variable: aria_req in /home/thainewsi/public_html/wp-content/themes/upaper/comments.php on line 73

Notice: Undefined variable: aria_req in /home/thainewsi/public_html/wp-content/themes/upaper/comments.php on line 79

اپنا تبصرہ بھیجیں