70

ھوک نامی وائرس سے روزانہ 8000 بچے مر جاتے ہیں جبکہ اس کی ویکسین بھی موجود ہے جسے خوراک کہتے ہیں

بھوک نامی وائرس سے روزانہ 8000 بچے مر جاتے ہیں جبکہ اس کی ویکسین بھی موجود ہے جسے خوراک کہتے ہیں مگر ہم نے کبھی میڈیا پہ اس وائرس اور اسکے شکاروں کا کبھی ذکر تک نہیں سنا۔ کیونکہ کبھی کوئی امیر بھوک سے نہیں مرا

جو حضرات ویکسین کے حق میں ہیں اور عوام کو اسے لگوانے کی ترغیب دے رہے ہیں چاہے وہ طبی ماہرین ہوں یا علمی شخصیات ہوں یا دانشوران قوم ہوں ان کی خدمت میں چند مختصر معروضات پیش خدمت ہیں

1- یہ ثابت کیجئے کہ یہ مرض دیگر امراض کی طرح قدرتی ہے یا انسانوں کی سازشوں کے نتیجہ میں مصنوعی ہے جسے حیاتیاتی جراثیمی ہتھیار بنا کر نسل کشی کی جا رہی ہے؟

اگر واقعی یہ وباء ہے تو وباء تو وہ ہوتی ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے گاؤں کے گاؤں شہر کے شہر برباد کر دیتی ہے اور سب کچھ ختم کر دیتی ہے۔ یہ پہلی لہر پھر دوسری لہر یہ سب کیا تماشا ہے؟ کسی گاؤں میں دس مرے کسی میں چار کسی گاؤں میں کوئی نہیں مرا- کیا وباء ایسی ہوتی ہے؟ اگر آسمانی عذاب الہٰی ہے تو سب سے پہلے دنیا میں اسرائیل جو بدترین ظالموں اور کفار کا مسکن ہے وہ کووڈ فری کیسے ہوگیا؟ کیا ساری دنیا میں عذاب الہٰی باقی رکھ کر اسرائیل پر سے عذاب الہٰی اٹھا لیا گیا؟

2- جس تن دہی سے اقوام متحدہ کے (یہودیوں کے زیرِ اثر) ذیلی ادارے کے احکامات پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے اور اسکے لیے سرکاری مشینری کو استعمال کیا جا رہا ہے یہ خود اپنی جگہ ایک معمہ ہے۔

3- اس مرض کی حقیقت اور اسکی سنگینی واضح کریں اور اسے کس زمرہ میں رکھیں گے جبکہ یہ عام نزلہ اور فلو بخار سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور لاپرواہی سے نظام تنفس پر اثر انداز ہوتا ہے؟ اسے مہلک اور جان لیوا ثابت کریں۔

4- جب اسکے مہلک و خطرناک اثرات ثابت ہی نہ ہوں گے تو ایک عام نزلہ اور فلو کیلئے ویکسین لگوانا کونسی عقلمندی ہے؟ جبکہ ویکسین کو بھی کسی تجربہ گاہ میں مختلف تجربات کے مراحل سے گزارا ہی نہ گیا ہو؟

5- یہ ثابت کرنا ہوگا کہ کیا اس مرض کا علاج صرف ویکسین ہی ہے اور کوئی طریق علاج دنیا میں موجود نہیں؟

6- اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ویکسین لگوانے سے یہ مرض ضرور ختم ہو جائیگا؟ ایسا دنیا کے کسی ادارے یا محقق نے نہیں کہا ہے تو خواہ مخواہ جان خطرے میں کیوں ڈالیں اور کیوں ویکسین کے مہلک نتائج کو سر پر لیں؟

7- ویکسین کے جواز کیلئے اس حدیث نبوی ﷺ کو بیان کیا جا رہا ہے اور استدلال کیا جا رہا ہے کہ مرض ہو جائے تو علاج کرو- مگر ویکسین تو مرض لاحق ہونے سے پہلے ہی لگائی جا رہی ہے۔ ساری دنیا کی سات ارب آبادی کو ویکسین لگانا یہ کونسا علاج ہوا؟

جب انسان خود چل سکتا ہے تو عصا کیوں پکڑوا رہے ہو؟ کیا احتیاط اسکا نام ہے کہ انسان مرنے سے قبل ہی کفن خرید کر رکھ لے؟ کیا ایسے واقعہ میں اس حدیث کا استعمال صحیح و درست ہے؟

پھر ان تمام دلائل و ثبوتوں کے ساتھ ایک وضاحتی تحریری خط عوام الناس کے نام جاری کرنا ہوگا کہ چاہے وہ کسی دارالافتاء کے مفتی ہوں یا کسی علاقہ کے قاضی یا امیر شریعت ہوں۔ یہ کوئی نماز روزہ یا رویت ہلال کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ انسانوں کی جانوں سے متعلق ہے۔ اگر علماء کرام کے کہنے پر ویکسین لگوا کر انسان مرے اور عورتیں بیوہ ہوئیں اور بچے یتیم ہوئے تو اسکا ذمہ دار کون ہوگا؟ جبکہ ویکسین لگوانے سے نہ صرف اموات بلکہ مختلف امراض جیسے فالج، رعشہ، قوت سماعت کی کمی، بوڑھی عورتوں کو ماہواری کا شروع ہو جانا، ماہواری ختم ہوتے ہی پھر دوبارہ ماہواری کا آجانا، دماغ میں خون کا منجمد ہو جانا، مردوں کے عضو خاص کا معطل یا کمزور پڑ جانا وغیرہ۔ ایسے بہت سے سائیڈ افیکٹس آئے دن سامنے آ رہے ہیں۔ یہ اسرائیل کا پلان ہے کہ صرف میڈیا پہ کیمپین چلا کر اور موبائل کی ٹون میں کرونا کرونا سُنا کر وہ ہمیں ہمارے ہی ہاتھوں مار رہے ہیں۔

یہ کیسی وباء ہے کہ جس کی ایک دوائی نہیں، ہر ملک نے خوف کا کاروبار کرتے ہوئے اپنی اپنی ویکسین متعارف کروا کر دنیا کو لوٹنا شروع کر رکھا ہے۔ اگر بیرون ملک جانا ہو تو ہر ملک نے اپنی سر زمین پر داخلے کیلئے الگ قسم کی ویکسین متعارف کروا رکھی ہے۔ خاک بدہن وباء تو دنیا میں آئی تھی طاعون کی صورت میں جس نے خاندان کے خاندان اور گاؤں کے گاؤں، شہر کے شہر ویران کر دیے تھے۔

ہم جانور نہیں ہیں کہ جس کا دل چاہے جو ٹیکہ چاہے لگا دے۔ اوپر سے دھمکیاں بھی دیں کہ اگر ویکسین نہ لگوائی تو ہم سم بند کر دیں گے، شناختی کارڈ بلاک کر دیں گے۔ کسی دفتر میں داخل نہیں ہونے دیں گے یہ کیا بدماشی ہے؟

کل کو کہیں گے کہ کنویں میں چھلانگ لگاؤ ورنہ ہم یہ کر دیں وہ کر دیں گے۔ کیا پاکستانی لگانا شروع کر دیں۔

کس قانون اور اتھارٹی کے تحت یہ دھمکیاں پاکستانیوں کو دی جا رہی ہیں اور ان کی پرسنل لائف میں دخل دیا جا رہا ہے۔ آواز اُٹھائیے یہ ہماری آپ کی زندگی اور نسلوں کا معاملہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں


Notice: Undefined index: HTTP_CLIENT_IP in /home/thainewsi/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 296

Notice: Undefined index: HTTP_X_FORWARDED_FOR in /home/thainewsi/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 298

Notice: Undefined index: HTTP_X_FORWARDED in /home/thainewsi/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 300

Notice: Undefined index: HTTP_FORWARDED_FOR in /home/thainewsi/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 302

Notice: Undefined index: HTTP_FORWARDED in /home/thainewsi/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 304

Notice: compact(): Undefined variable: limits in /home/thainewsi/public_html/wp-includes/class-wp-comment-query.php on line 860

Notice: compact(): Undefined variable: groupby in /home/thainewsi/public_html/wp-includes/class-wp-comment-query.php on line 860

Notice: Undefined variable: aria_req in /home/thainewsi/public_html/wp-content/themes/upaper/comments.php on line 73

Notice: Undefined variable: aria_req in /home/thainewsi/public_html/wp-content/themes/upaper/comments.php on line 79

اپنا تبصرہ بھیجیں