103

’’بنیادی انسانی ضروریات‘موجودہ حکومت اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ تحریر: عبدالکریم جاذب

کھانا، پینا،رہائش بنیادی انسانی حقوق ہیں۔جن کا حصول ہر شہری اور فرد کا حق ہے۔ جو ہر ریاست اور حکومت اپنے عوام کو دینے کی پابند ہے اور حکومتی نظم و نسق چلانے کے لیے ہر فرد تک اسکی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرننے کا تمام انتظام اور سہولت پہنچانا ہر حکومت کا فرض عین ہے۔ اگر کوئی بھی حکومت یا ادارہ آئین میں درج بنیادی و تمام قسم کے شہری حقوق کو پورا کرنے میں نا کام رہے یا نا اہلی کا ثبوت دے۔ تو بنیادی حکومتی ذمہ داری پورا نہ کرنے پر ایسی حکومت کو اقتدار و اختیار پر قابض رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اور ایسی حکومت اپنی اخلاقی بنیادوں سے فارغ ہو چکی ہوتی ہے۔ موجودہ پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت کے تین سالہ دورِ اقتدار میں جس طرح سے مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کا عفریت بے قابو ہو چکا ہے۔ اور اہلِ اقتدار عوام کو صرف سبز باغ دکھانے اور میٹھی گولیاں دینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر رہے۔زرعی صوبہ اور ملک ہونے کے باوجود اور بنیادی زرعی اجناس گندم، گنا کی وافر پیداوار کے باوجود ہم مہنگی چینی اور آٹا خریدنے پر مجبور ہیں۔ شوگر ملز مالکان اور فلور مالکان جو کہ حکومتی صفوں میں موجود ہیں۔ دونوں ہاتھوں سے دولت اکٹھی کر رہے ہیں اور ذخیرہ اندوزی اور منا فع خوری کے کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔ آٹا اور چینی بنیادی انسانی ضروریات ہیں جن کو پاکستانی عوام کے لیے شجرِ ممنوع بنایا جا رہا ہے۔ پھر عوام تک ان اشیائے ضروریہ کو پہنچانے کے لیے نام نہاد بازار اورسستے ڈپو کے نام پر لمبی قطاروں میں عوام کو لگا کر وقت برباد کیا جا رہا ہے اور تذلیل کی جاتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور پنجاب کے وزیرِاعلیٰ عثمان بزدار کے علاوہ تمام وزراء و میشران وہی پرانے چہرے ہیں جو سابقہ فوجی و جمہوری حکومتوں اور جماعتوں میں موجود رہے ہیں۔ وہی خاندان ہیں جو پچھتر سالوں سے ہم پر مسلط ہیں۔ ان میں جاگیردار گھرانوں اور سابقہ فوجی جرنیلوں کی اولاد ہے جو اقتدار کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور جن کی جائیدادیں اور مفادات پاکستان سے باہر دیگر ممالک میں موجود ہیں۔ ان کو پاکستانی لوگوں کی تکالیف و دکھ کا احساس کیونکر ہو سکتا ہے۔ وہ عوامی مسائل کو کیسے سمجھ سکتے ہیں۔اقتدار پر قابض خاندان حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں عوام کو ایہام اور غیر یقینی کی کیفیت میں رکھنا خوب جانتے ہیں اور عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے میں یکساں مہارت رکھتے ہیں۔ عوامی نفسیات سے واقف ہیں اور انکی ترتیب ہی اس پہنچ پر ہوتی ہے کہ لوگوں کو کیسے الّو بنا کر اپنا مفاد حاصل کرتا ہے۔ لوگوں کو تعصبات کی نذر کیسے کرنا ہے اور مقامی سطح پر بے اتفاقی اور ظلم کو کیسے فروغ دینا ہے۔ کیسے خوشنما لفظوں کا جال بُن کر اقتدار کی سیڑھیاں چڑھنا ہے۔معاشرے میں افراتفری کیسے رکھتی ہے۔ لوگوں کو کیسے لڑوانا ہے۔ ان کو کیسے کمزور رکھنا ہے، صوبائیت اور مسالک کے نام پر کیسے تقسیم در تقسیم کا یہ عمل جاری رکھنا ہے۔ دوسری طرف عوام الناس عرصہ دراز سے یہ تمام واردات دیکھ رہے ہیں۔تکلیف اٹھا رہے ہیں۔ دکھ سہہ رہے ہیں۔ پھر بھی احتجاج نہیں کر رہے۔ ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ ایلِ دانش صورتحال کا تجزیہ کریں اور گہری مطالعہ و تحقیق سے معاشرتی پرتوں کو کھولیں۔ رویوں کا جائزہ لیں اور تجزیہ کریں اور اصلاحِ احوال کے لیے جدوجہد تیز کر دیں۔ عوامی سطح پر مسائل کا ادراک کریں۔ خالص عوامی اداروں کی تشکیل کی کوشش کریں۔ طبقاتی مفادات کا تجزیہ و جا ئزہ لیا جائے۔ تمام صوبوں، شہروں، قصبوں،دیہاتوں کے لوگوں تک پیغام پہنچے۔ عوامی شعوری سطح کو بلند کرنے کے لیے تعلیمی عمل کو تیز کیا جائے۔ ایسی سیاسی جماعتوں کی تشکیل ہو جن میں نچلے اورپسے ہوئے طبقات کی نمائندگی ہو۔ مثبت اندازِ فکر کی ترویج کا اہتمام ہو۔ عوام جو کہ اکثریت میں ہیں۔ اپنے آپ کو متحد کریں۔ اپنی عوامی نمائندگی کو بہتر کریں۔ اپنی ذات پر اعتماد کرنا سیکھیں۔ اپنے آپ کو تعلیم سے ہنر سے اور جدید مہارتوں سے لیس کریں۔ اپنی ذاتی ترجیحات کو بدلیں۔اپنے لیے بڑے مقاصد کا تعین کریں۔ سابقہ تاریخ سے سبق سیکھیں اور ان سیاسی مداریوں کے جھانسے میں نہ آئیں۔ کرپشن و اقربا پروری کا چورن نہ خریدیں۔ ہر فرد انفرادی سطح پر اپنی ذمہ داری قبول کرے۔ اپنی زندگی کی ذمہ داری لے اور اپنے ردِعمل کو احتساب کے تابع کرے۔ اور مثبت سوچ اور عقائد رکھے۔ اپنی ناکامیوں کو خود قبول کرے اور ان سے سیکھے۔ اپنی خوبیوں اور خامیوں کو سمجھے اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کو اختیار کرے تو اس کے ثمرات اجتماعی زندگی میں بھی نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ پھر اپنے لیڈروں کا احتساب بھی ہم کر سکیں گے اور اپنے قومی مقاصد کی نشکیل کر کے ترقی و کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنا شروع ہو جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں


Notice: Undefined index: HTTP_CLIENT_IP in /home/thainewsi/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 296

Notice: Undefined index: HTTP_X_FORWARDED_FOR in /home/thainewsi/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 298

Notice: Undefined index: HTTP_X_FORWARDED in /home/thainewsi/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 300

Notice: Undefined index: HTTP_FORWARDED_FOR in /home/thainewsi/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 302

Notice: Undefined index: HTTP_FORWARDED in /home/thainewsi/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 304

Notice: compact(): Undefined variable: limits in /home/thainewsi/public_html/wp-includes/class-wp-comment-query.php on line 860

Notice: compact(): Undefined variable: groupby in /home/thainewsi/public_html/wp-includes/class-wp-comment-query.php on line 860

Notice: Undefined variable: aria_req in /home/thainewsi/public_html/wp-content/themes/upaper/comments.php on line 73

Notice: Undefined variable: aria_req in /home/thainewsi/public_html/wp-content/themes/upaper/comments.php on line 79

اپنا تبصرہ بھیجیں