خالق نے اس کاٸنات کو خوبصورت انداز میں تخلیق کیا ہر اس چیز کو تخلیق کیا جو انسان کے لٸیے فاٸدہ مند اور ضروری ہو سکتی ہے۔ آسمان کی بلندیوں سے باتیں کرتے یہ کُہسار ، جو انسان کو قیمتی پتھر اور معدنیات فراہم کرتے ہیں۔ یہ جنگلات جو انسان کی خوراک، لکڑی اور آکسیجن کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ اس زمین کی خوبصورتی اور انسان کی ضروریات پوری کرنے کے لیٸے مختلف انواع کے جانور اور پرندے موجود ہیں۔
الغرض قدرت کے اس کارخانے میں کوٸی چیز بنا کسی مقصد تخلیق نہیں کی گٸی بقول شاعر مشرق علامہ محمد اقبال،
نہیں ہے چیز نکمی کوٸی زمانے میں
کوٸی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
لیکن انسان جسے اشرف المخلوقات کا درجہ حاصل ہے۔ جو ایک طرف ترقی کے میدان میں چاند اور دوسرے سیاروں تک رساٸی کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن دوسری جانب اپنی ایجادات کے منفی پہلوؤں کو جھٹلا کر اپنے مستقبل اور اس کرہ ارض کی خوبصورتی کو داٶ پہ لگا چکا ہے ۔انسان کی ایجاد کردہ چیزیں جو ایک طرف تو انسانوں کے لٸے فاٸدہ مند ہیں جبکہ دوسری جانب ان ایجادات کےمنفی اثرات انسانیت کے لٸے کسی تباہی سے کم نہیں ہیں۔ جس طرح اس دنیا اور اس میں موجود ہر ایک چیز کو ایک دن فنا ہونا ہے اسی طرح انسان کی ایجاد کردہ مصنوعات کچھ عرصہ استمال کے بعد ناکارہ ہو جاتی ہیں جنہیں یا تو کیمیاٸی عمل کے بعد دوبارہ سانچہ جاتا ہے جسے ری ساٸیکل کہا جاتا ہے یا مخصوص طریقوں سے تلف کر دیا یا پھینک دیا جاتا ہے لیکن یہ مصنوعات مختلف خواٸص کی حامل ہوتی ہیں کچھ مصنوعات گزرتے وقت کے ساتھ زمین میں موجود بیکٹیریا کی وجہ سے ختم ہو جاتیں ہیں جبکہ کچھ ہزاروں سال تک اسی حالت میں موجود رہتی ہیں اس میں سر فہرست نام پلاسٹک کی مصنوعات کا ہے پلاسٹک کی مصنوعات ہماری روزمرہ زندگی کا ایک لازم جزو بن چکی ہیں کھانے پینے کی اشیا ٕ سے لیکر ضروریات زندگی کی ہر چیز میں پلاسٹک مصنوعات کا عمل دخل لازم بن چکا ہے جس میں سب سے خطرناک پلاسٹک کے بیگ اور برتن ہیں جو نا صرف ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنتے ہیں بلکہ انسانی جسم میں مختلف بیماریوں کا موجب بھی بنتے ہیں۔
ورلڈ واٸلڈ لاٸف اور آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف نیو کیسل میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ہر آدمی ہفتے میں تقریباً پانچ گرام پلاسٹک نگل جاتا ہے جو کہ ایک کریڈٹ کارڈ کے وزن کے برابر ہےاس طرح یہ مقدار ایک مہینے میں 21 گرام اور ایک سال میں اڑھاٸی سو گرام تک پہنچ جاتی ہے۔ پلاسٹک باقی چیزوں کی طرح گل سڑ کر زمین کا حصہ نہیں بنتا، البتہ وقت کے ساتھ ساتھ چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر زمینی اور سمندری علاقوں میں پھیل جانے کےعلاوہ فضا میں بھی پھیل جاتا ہے اور انسانی فوڈ چین میں شامل ہو جاتا ہے زیادہ تر انسانی جسم میں پلاسٹک کےذرات مچھلیوں کی خوراک بننے کے بعد فوڈ چین کے ذریعے انسانی جسم میں پہنچ جاتے ہیں۔ مشروبات اور کھانے کے لٸے استمال ہونے والے پلاسٹک کے برتن بھی انسانی جسم میں پلاسٹک پہنچانے میں کافی مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔
ہلکا اور سستا ہونے کے باعث پلاسٹک بیگ کا استعمال اس قدر عام ہو چکا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں روزانہ 15 سے 29 کروڑ پلاسٹ بیگ استعمال کیٸے جاتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر نقصان دہ ہونے باوجود کیا اسے تلف نہیں کیا جا سکتا؟ یا پھر اس کے متبادل کوٸی چیز استعمال نہیں کی جا سکتی؟
جیسا کہ پلاسٹک دوسری چیزوں کی طرح گل سڑ کر زمین کا حصہ نہیں بن سکتا اور اسکو جلایا بھی نہیں جا سکتا کیونکہ اسکو جلانے سے اس سے جو زہریلی گیس خارج ہوتی ہے وہ فضاء میں شامل ہو جاتی ہے۔ اور بارش کے ذریعہ کھیتوں میں اناج کے پودوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اسطرح کا متاثرہ اناج استعمال کرنے سے جگر، گردے اور جسم کے دیگر اعضاء متاثر ہوتے ہیں۔ کینسر کا بھی خطرہ رہتا ہے۔
اب رہا سوال کہ اس کو تلف کس طرح کیا جاٸے؟
اسی کرہ ارض پر موجود براعظم ایشیا ٕ کا ایک چھوٹا سا ملک، سنگا پور، جس نے صفاٸی میں بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جس کی تقلید کر کے کچرے اور پلاسٹ جیسی نحوست سے جان چھڑاٸی جا سکتی ہے۔
سنگا پور میں کچرا سرعام نہیں جلایا جاتا بلکہ اسکے لٸے علیحدہ سے ایک عمارت بناٸی گٸی ہے جس میں پورا سال آگ جلتی ہے پورے ملک سے روزانہ کی بنیاد پر کچرا اکھٹا کر کے اس عمارت میں لایا جاتا ہے یہاں 1000 ڈگری سیلیس پر جلنے والی آگ سب کچھ جلا دیتی ہے اس کچرے کو یہاں جلاکر اس عمل سے بجلی پیدا کی جاتی ہے اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس سے نکلنے والا دھواں بھی فلٹر شدہ ہوتا ہے جو کہ ماحول کے لٸے قطعاً نقصان دہ نہیں ہے اس عمارت میں مزدوروں کی بجاٸے ساٸنسدان اور اپنے شعبے کے ماہرین موجود ہوتے ہیں جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ یہاں سےنکلنے والا دھواں صاف ہو۔ کچرا جلنے کہ عمل سے پیدا ہونے والے زہریلے دھوٸیں کو صاف کرنے کے لٸے جدید ٹیکنالوجی پر مبنی فلٹر لگاٸے گٸے ہیں اس عمارت میں 90 فیصد کچرا جل کر غاٸب ہو جاتا ہے اور 10 فیصد راکھ کی صورت میں باقی رہتا ہے جسے دور دراز انسانی ہاتھ سے بناٸے جزیرے پر لے جا کر پانی میں ڈال دیا جاتا ہے جو کہ سمندر اور دریاٶں سے بالکل الگ تھلگ ہے سنگا پور کی اس حکمت عملی سے وہ پلاسٹک جسے غاٸب ہونے میں سینکڑوں سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے ایک دن میں غاٸب ہو جاتا ہے اور اس سے ماحول کی خوبصورتی کے ساتھ زمینی و آبی حیات بھی متاثر نہیں ہوتی۔
اسکے علاوہ مختلف ممالک میں استعمال شدہ پلاسٹک کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے لٸے چھوٹے پیمانوں پر گھریلو سطح پر صنعتیں لگاٸی تو گٸی ہیں لیکن آگاہی نہ ہونے کی بدولت یہ صنعتیں زیادہ فعال نہیں ہیں پلاسٹک بیگ سے چھٹکارا حاصل کرنے کا سب سے موثر حل یہ ہے کہ ہمیں پلاسٹک بیگ کی بجاٸے اسکے متبادل کاغذ اور کپڑے کے بنے تھیلے استعمال کرنے چاہٸیں جو دوبارہ قابل استعمال ہونے کے ساتھ ساتھ ماحول دوست بھی ہوتے ہیں.
Notice: compact(): Undefined variable: limits in /home/thainewsi/public_html/wp-includes/class-wp-comment-query.php on line 860
Notice: compact(): Undefined variable: groupby in /home/thainewsi/public_html/wp-includes/class-wp-comment-query.php on line 860
Notice: Undefined variable: aria_req in /home/thainewsi/public_html/wp-content/themes/upaper/comments.php on line 73
Notice: Undefined variable: aria_req in /home/thainewsi/public_html/wp-content/themes/upaper/comments.php on line 79