’’ہمارا تعلیمی نظام‘‘ توازن، ترتیب اور اعتدال زندگی کا حسن ہے۔اور معاشرتی ترقی و فلاح کا ضامن ہے۔ تعلقات کی مضبوطی و استحکام اسی کے دم ہے۔ سماج میں امن اور استحکام اسی کا پرتو ہیں۔ زندگی کا ہر شعبہ، مملکت کا ہر ستون اور ترقی و عروج کا ہر سنگِ میل توازن و اعتدال کی شاہراہ سے ہی گزرتا ہے۔ توازن و ترتیب میں بگاڑ سے بد امنی، تعلقات میں دراڑ اور سماجی امن میں خلل پڑ جاتا ہے۔ جس سے اقوام صدیوں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ ممالک تاریخ کی دھول میں کھو جاتے ہیں۔ قوموں کی داستان بھی باقی نہیں رہ جاتی۔عدم توازن سے نا انصافی،ظلم اور زیادتی برپا ہوتی ہے۔ جو کسی بھی قوم اور سماج کو قابلِ تلافی نقصان پہنچانے کا باعث ہوتی ہے۔ فسق و فجور پر مبنی نظام چل سکتا ہے لیکن نا انصافی و ظلم پر مبنی نظام اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔ہمارا نظامِ انصاف نو آبادیاتی دور کے غلامانہ تسلط کی یادگار ہے۔ جس میں اصلاح کی بہت گنجا ئش موجود ہے اور وقت کی ضرورت بھی ہے کہ ہم اپنے عدالتی و منصفی کے اس نظام کا جائزہ لیں اور ان کو اپنے حالات اور قومی مزاج کے مطابق دوبارہ نشکیل دیں۔ معاشرے میں امن کو قائم رکھنے اور سماجی توازن میں پولیس کا کردار بے حد اہم اور ضروری ہے۔ نیز جرائم کی بیخ کنی اور شریف پُرامن شہریوں کو سماج دشمن اور جرائم پیشہ لوگوں سے تحفظ بھی پولیس ہی فراہم کرتی ہے۔ ہماری پولیس لائق تحسین ہے کہ سیاسی مداخلت اور رشوت و اقربا پروری کے اس ماحول میں بھی اپنا کرداار ادا کر رہی ہے۔طویل ڈیوٹی کے باوجود انتھک محنت سے جرائم کوکنٹرول کرنے کی سعی مسلسل میں مصروفِ عمل ہے۔ ہمارے سماجی ڈھانچہ میں بہت سے ایسے مسائل اور وجوہات ہیں۔ جن کے باعث پولیس فورس کے کام میں رکاوٹ آرہی ہے۔ نیز چونکہ یہ سارا سٹرکچر اور قانون نو آبادیاتی دور کا بنا ہوا ہے۔ جو مسائل کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اس قانون کو اپنے آزادی کے بعد کے سانچے میں ڈھالنا اور نیا سوشل کنٹریکٹ وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو ہمارے ہاں تعلیمی خواندگی کی شرح انتہائی کم ہے اور سماجی ڈھانچہ میں غلامی کی یادگار ذات پات کا نظام، علاقائی تعصبات، مذہبی انتہا پسندی و کم علمی، کم پڑھے علماء،توہمات کا شکار پیر اور صوفیا جن کو جدید حقائق کا ادراک نہیں ہے۔ اور اکثر لوگوں کو قدیم توہمات میںہی رکھنا چاہتے ہیں کہ ان کی دکانداری میں مندہ نہ آئے۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاںایسے عقائد اور روایات موجود ہیں جن سے معاشرہ میں جہالت کو فروغ ملتا ہے اور جرائم میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔ جہالت کو غیرت کا نام دیا جاتا ہے۔ مردانہ انا اور غرور کو خود ی کہہ کر تسلی دی جاتی ہے۔ جاہلانہ روایات اور قبائلی تعصبات اور جاگیرداری کی قدیم رسموں کے باعث جرائم میں اضافہ پولیس کے کام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ عورت کو غلام اور ملکیت سمجھا جاتا ہے اور اسے مذہبی تعلیمات کا سہارا لے کر فرد سمجھنے سے انکار نے عورت کے خلاف کرائمز میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ چونکہ ہماری پولیس فورس کے جوان بھی اسی معاشرہ سے آتے ہیں۔ جن کو تربیت و تعلیم کے ذریعے بدلنے کی ضرورت بھی ہے۔ سماجی نا ہمواری، معاشی کمزوری، بے روزگاری، شرح خواندگی میں کمی اور سماجی مداخلت نیز مخالفین مقدمہ بازی میں الجھانا جیسی وجوہات کے باعث کرائمز بے قابو ہو رہے ہیں۔دوسری طرف پولیس فورس کو جدید خطوط اور نئے قوانین کے مطابق نہ ڈھالنے کے باعث آج بھی تفتیش کے لیے تھرڈ ڈگری کا استعمال ہمارے نظامِ انصاف کو کمزور کرنے کا باعث ہے۔ پولیس میں شرح تعلیم کو بڑھانے کی ضرورت بھی ہے۔ گواہی اور تفتیش کو جدید سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے سے بہت سارے مقدمات پولیس کی سطح پر ہی خارج ہو جائیں گے۔ پولیس کے بعدمقدمات عدالتوں کا رُخ کرتے ہیں۔ جہاں عوام الناس کو عدل و انصاف کی امید ہوتی ہیں۔ جہاں اپنے جھگڑوں کا تصفیہ انصاف کی بنیاد پر کروانا چاہتے ہیں۔ لیکن یہاں بھی ہمارا سامنا اسی نو آبادیاتی دور کے قوانین سے ہوتا ہے۔ جو ہماری موجودہ معاشرتی اور سماجی ضرورت کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ پولیس کے ہاتھوں مقدمات میں کی گئی خرابی یہاں اور بڑھ جاتی ہے۔ مقدمات کے حل میں اور شنوائی میں بے حد طوالت اور سست ترین کاروائی کی وجہ سے مقدمات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ہمارا عدالتی نظام اس بوجھ کے نیچے دب چکا ہے۔ عدالتی نظام میں سچ کو ڈھونڈنا اور جھوٹ کو سزا دینا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ وکلاء اور بار اپنے فرائض کو سر انجام دینے کی بجائے خود مافیاز کا روپ دھار چکے ہیں۔عدالتی نظام میں تاخیری حربوں کا استعمال اور سائلین کو مالی ار ذہنی خلفشار میں مبتلا کرنے کو اچھی وکالت میں شمار کرنا شروع کر دیا گیا ہے۔ قانون کا مطالعہ اور مباحث کو وقت کا ضیائع سمجھ کر قانون کی کتابوں کو طاق میں سجانا اب وکلاء کا وطیرہ بن چکا ہے۔ مخالفین کو مقدمات میں الجھا کر بار کی طاقت کا استعمال کر کے ججز کے بلیک میل کیا جاتا ہے اور من پسند فیصلے لیے جاتے ہیں۔ جن سے وکلاء کے خلاف تشدد کے رجحان میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے اور کچہری و عدالتوں میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ تصویر کا روشن رُخ بھی ہے کہ آج بھی روایات اور اصولوں سے گندھے ہوئے لوگ موجود ہیں کہ جن کے من اجلے ہیں اور روشن چہروں کے ساتھ کالے کوٹ کی حرمت کی پاسداری کر رہے ہیں۔ اور وہ ججز بھی موجود ہیں جو انصاف اور اصولوں کی خاطر ہر ستم برداشت کر کے اپنے فیصلوں کے ذریعے بولتے ہیں۔ کہ جن کی وجہ سے یہ نظام ابھی تک قائم ہے۔ ان وکلاء اور ججز کو سلام پیش کرتا ہوں کہ وہی ہمارے نظامِ انصاف کی واحد امید ہیں۔ بندی خانے اور جیلیں بھی ہمارے نظامِ انصاف کا اہم ترین حصّہ ہیں کہ جزا و سزا کے اس نو آبادیاتی دور کی یادگار میں یہ بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔بنیادی طور پر جرائم پیشہ کو عام آبادی سے الگ کر دیا جاتا ہے کہ ان کی اصلاح ہو سکے اور وہ تنہائی میں اپنی غلطیوں اور پریشانیوںپر غور کریں اور خود کو بدلنے کا عزم بنائیں۔ لیکن یہاں بھی صورتحال بقیہ اداروں اور اجزائے انصاف کے دیگر لوازمات سے مختلف نہیں کہ یہاں جرائم کم ہونے کی بجائے ملزم پکا مجرم بن کر باہر نکلتا ہے کہ اصلاح ہونے کی بجائے اس کی مجرمانہ تربیت ہو رہی ہے۔ بے گناہ یہاں آکر مایوسی اور نا امیدی کے باعث جرم کی تربیت لے کر معاشرہ کے لیے تکلیف دہ ہو رہا ہے۔اس ساری صورتحال کے جائزہ سے یہ حقیقت بالکل عیاں ہے کہ سماجی و معاشرتی اصلاح و ترقی کے لیے ہمیں بہت ہی بنیادی اقدامات کی ضرورت ہے۔ پرائمری سطح پر تعلیم و تربیت کے نظام کو جدید سائنسی و اخلاقی بنیادوں پر استوار کرنا ضروری ہے۔ نئے سوشل کنٹریکٹ کی ضرورت ہے۔ معاشرہ کو ایک اکائی بنانے کے لیے ہر قومیت کو سماجی انصاف اور یکساں ترقی لازمی امر ہے۔ حکومت سازی اور سیاست میں عام افراد کی شمولیت کو یقینی بنانا اشد ضروری ہے اور اقتدار کا سر چشمہ عوام کو قانون سازی اور آئین سازی مین شامل کیا جائے تو حالات اور ملک و قوم کی تقدیر بدلنے مین کچھ دیر نہ لگے گی۔س
154
Notice: compact(): Undefined variable: limits in /home/thainewsi/public_html/wp-includes/class-wp-comment-query.php on line 860
Notice: compact(): Undefined variable: groupby in /home/thainewsi/public_html/wp-includes/class-wp-comment-query.php on line 860
Notice: Undefined variable: aria_req in /home/thainewsi/public_html/wp-content/themes/upaper/comments.php on line 73
Notice: Undefined variable: aria_req in /home/thainewsi/public_html/wp-content/themes/upaper/comments.php on line 79