’’کامیابی کے بنیادی اصول‘‘ انسانی شخصیت و کردار کے چار بنیادی عناصر ہیں۔ جسمانی، روحانی ، ذہنی اور جذباتی عناصر ، جن سے انسان کی شخصیت اور کردار کی تشکیل مکمل ہوتی ہے۔ ان چاروں پہلوئو ں کی تکمیل و تسکین سے انسانی شخصیت کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوتی ہے ۔ کوئی ایک پہلو یا عناصرتشنہء رہ جائے تو کامیابی ادھوری تصور ہوتی ہے۔ جسمانی تندرستی و صحت مندی ، ذہنی حوالے سے چاق و چوبند اور فعال ہونا، جذباتی لحاظ سے متوازن ہونااور روحانی توانائی سے بھر پور ہونا ہی شخصیت کو کمال و کامرانی عطا کرتا ہے اور کردار کو معیار و مقدر کی بلندیوں تک پہنچا تا ہے اورشخصیت با کمال بنتی ہے اور کردار کامیابی کی طرف رہنمائی کرتاہے۔ زندگی کامرانی اور کمال کی طرف رواں دواں ہو جاتی ہے۔ ہر انسان مادی ، روحانی، جذباتی اور ذہنی لحاظ سے کامیابی کا خواہاں ہے۔ دولت و ثروت کے انبار کا متلاشی بھی ہے۔ اور عزت و شہرت کا طلبگار بھی ہے۔ سکون قلب کی دولت بھی حاصل کرنا چاہتا ہے اور قادر ِ مطلق کی محبت و الفت کا حصول بھی اس کا مطمع نظریہ ہے۔ غرض ہر لحاظ سے کامیابی حاصل کرنے کا خواہش مند ہے اور یہ انسان کا فطری حق بھی ہے۔ رزق میں وسعت ، کثرت اور تسلسل ہر انسان کی چاہت اور حق بھی ہے۔ اس کے جواب میں کائنات کو اس کو اس کا حق لوٹانا بھی ضروری ہے۔ بقول شاعر مشرق: یقین محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتح ِ عالم جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں ایک شعر میں کامیابی کے گُرسکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اب اس کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہمارے حصے کا کام ہے ۔ اپنی خواہش پر کامل یقین ہو اس کے لئے مسلسل عمل کا طریقہ کار ہو اور ہر ایک سے محبت ہی واحد ذریعہ ہے۔ جو کامیابی کی طرف بڑھاتا ہے۔ کسی بھی مق۔صد کے حصول کے لئے اس کا واضح تصور اور خواہش کا ہونا اشد ضروری ہے۔ انسان کو مکمل علم ہو کہ وہ کیا حاصل کرنا چاھتا ہے اور اس کے لئے خدا ورانسانیت کے لئے وہ کیا کرسکتا ہے۔ یعنی وہ اپنی خواہش کی تکمیل کیوں چاہتا ہے۔ اس کے سامنے اس کی خواہش اور چاہت واضح ہو اس کے جواب میں یعنی خواہش کی تکمیل اور اس کی مادی تجسیم کے بعد وہ خدا کو ، کائنات کو اور اس کی مخلوق کو کیا دے گیا۔ ان مراحل کے بعد وہ لائحہ عمل آئے گا جس پر چل کر اس کی خواہش پوری ہو گی وہ طریقہ کار بھی ، پلان بھی اس نے بنانا ہے ۔جس کے لئے اسے خدا کی بھر پور مدد حاصل ہو گی۔ اس سارے عمل، کو لکھ کر محفوظ بنانے سے مقصد کی تکمیل کی طرف بڑھنا شروع ہوں گے ۔صبح جاگنے کے بدعد اور رات کو سونے سے پہلے تمام پلان کو اُونچی آواز میں دہرائیں تا کہ آپ کی شعوری خواہش اور پلان لا شعور کی تکمیل توانائی سے ہم آہنگ ہو جائے ۔ ان مراحل سے گزرنے سے یہ خواہش خیال اور سوچ سے آگے آ پ کے احساسات اور جذبات میں رچ بس جائے گی اور یقین کے مرحلہ میں داخل ہو جائے گی ۔ کامیابی کا پہلا اصول خواہش اور مقصد کا واضح اورclearہونا ہے۔ اور اس سے کوئی کائناتی قانون نہ ٹوٹے اور کسی دوسرے انسان کی دل شکنی اور نقصان نہ ہو۔ کامیابی کا دوسرا صول خواہش کی تکمیل کا کامل یقین ہو نا ہے۔ یعنی وہ مقصد انسان کے جذبات اور احساسات سے منسلک ہو کر یقین اور ایمان کے درجہ پر پہنچ جائے۔اور اس کی تکمیل کا مکمل منصوبہ بھی بتاتا ہے۔کسی بھی سوچ ،خیال ، تصوراور ارادہ کو یقین بنانے کے لئے سب سے بہترین طریقہ خود ترغیبی یعنی Auto Suggestionیا self suggestion کا عمل ہے۔ اوریہ کامیابی کی راہ کا تیسرا اصول ہے۔ خود ترغیبی کا عمل کسی بھی عادت کو چھوڑنے یا کسی نئی اوراچھی عادت کو اپنانے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اپنے اندر کوئی خوبی پیدا کرنے کے لئے اور کسی خامی سے جان چھڑانے کے لئے خود کو ہدایت دینے کا عمل ہے۔ اپنے مقصد کو صبح شام اونچی آواز سے دہرانے سے وہ ہمارے لا شعور میں ایک یقین کی طرح پختہ ہو جاتا ہے۔ بار بار خود سے بات کرنے سے خواہشات تجسیم کی طرف بڑھتی ہیں۔ خود تر غیبی کا عمل ہمارے اعمال و افعال پر ہمارے کنٹرول کو بڑھا دیتا ہے۔ اور ہم اپنے رد ِ عمل کی طاقت کو کنٹرول کر کے من پسند نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ اپنی شخصیت میں اپنی مرضی کی اچھی اور عمدہ اقدار کی نشونما اور تعمیر کر سکتے ہیں۔ کردار کو بلند اور وسیع تر اچھائی سے شاندار کر سکتے ہیں۔ خود ترغیبی ہمارے لا شعور میں کھلنے والا دروازہ ہے جس سے کوئی بھی سوچ اور پیغام ہمارے لاشعور میں داخل ہو کر اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔ ہمارے شعور اور لا شعور کو ہم آہنگ کرنے کا عمل خود ترٖغیبی کا عمل ہے۔ کامیابی کا چوتھا اصول خاص علم کا حصول ہے۔ یعنی ہمارے مقصد کے حوالے سے معلومات اور علم کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ اگر ہمارا مقصد دولت کا حصول ہے۔ توہم اسے کیوں حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟ ہم اسے کہاں استمعال کرنا چاہتے ہیں؟ اس کے لیے ہمارے پاس تعلیم، ہنر ، کے وسائل کیا ہیں؟ ہمیں کن ذرائع کی ضرورت ہے؟ کونسے کاروبار ہماری شخصیت و رویے سے ہم آہنگ ہیں؟ دولت کے بارے میں ہمارا علم کس نوعیت کا ہے؟ ہم اپنے علم کو کس طرح منظم کر کے اس سے دولت و وثرت حاصل کر سکتے ہیں؟ ہمارے پاس اپنے ماحول، رواج ، اور رسوم کا علم کس حد تک ہے اور کس شعبہ ء زندگی سے منسلک ہو کر ہم اپنی خواہشات کی تکمیل ممکن بنا سکتے ہیں؟ منفی اور نقصان دہ سوچیں سے کس طرح سے محفوظ رہا جا سکتا ہے؟ اپنی شخصیت کی مکمل پہچان ہو اپنے کردار کا علم ہو۔اپنے ماحول سے آگاہی ہو اور اپنے شعبہ کا مخصوص علم ہمارے پاس ہو۔ کامیابی کا پانچواںاصولimaginationیعنی تصور کی قوت کا ہوناہے۔ سوچ دماغ میں تصورات کی شکل میں تجسیم ہوتی ہے۔ ہمارا دماغ لفظوں کی بجائے تصویروں میں سوچتا ہے۔ گلاس کا لفظ بولنے سے پردے پر اس کی تـصویر بنتی ہے۔ لہذٰااپنی خواہش کو تصویر میں پورا ہوتے ہوئے دیکھنے سے اس کی مادی تجسیم کا عمل تیز تیز ہو جاتاہے۔ کوئی بھی منصوبہ مادی حوالے سے مکمل ہونے سے پہلے ذہن میں مکمل ہوتا ہے اور تصویر میں تکمیل پاتا ہے۔ اس کے ہر پہلو پر غورکرنا ہوتا ہوتا ہے اور منصہ شہود میںآتا ہے۔ کامیابی کے لئے یہ اصول ایک بنیاد کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی دو اقسام ہیں۔ اکتسابی تصور جو پہلے سے موجود علوم کی بنیادپر وجود میں آتا ہے اور دوسرا ہے تخلیقی تصور جو کہ پہلی دفعہ وقوع پذیر ہوتا ہے۔یہ خدا کی طرف سے خصوصی ودیعت ہوتا ہے۔ لا شعور کے کائنات اور فیلڈ سے تعلق کی بنیاد پر متصور ہوتا ہے۔اس تصور سے نئی ایجادات اور قوانین دریافت ہوتے ہیں اورعلم و فلسفہ کی پیچیدگتھیاں سلجھتی ہیں۔ مسائل کا تخلیقی اور انوکھا حل وجود میں آتا ہے اور خواہشات کی تکمیل کے رستے کھلتے ہیں۔ کامیابی کی چھٹا اصول ہے منظم منصوبہ بندی یعنی مقصد یا خواہش کے حصول کے لیے باقاعدہ اور منظم پلان بنانا اور ایک بڑے منصوبے کو چھوٹے حصوں میں تقسیم کرنا تا کہ درجہ بدرجہ اس کی تکمیل ممکن ہو سکے۔ دولت، شہرت، عزت اور دیگر خواہشات کے حصول کے لیئے باقاعدہ شعوری منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس میں واقع سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ اور کائنات میں موجود ممکنات سے متعلق پلاننگ کی جاتی ہے۔ دولت کمانے کے لیے کاروبار کرنا یا اپنی خدمات کی بنیاد پر اس کا حصول ممکن بنانا ہو تو ایک منظم اور باکمال پلاننگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ کامیابی کا ساتواں اصول فیصلہ سازی کی صلاحیت کا ہونا ہے۔ فیصلہ فوری اور دیرپا بنیادوں پر ہو اور اس کے لیے مکمل علم اور منظم منصوبہ بندی موجود ہو۔فیصلوں کی تبدیلی کے لیے سست روی ار تاخیر کا رویہ اختیار کا جا نا ضروری ہے۔ فوری اور دیر پا فیصلوں کے لئے وسیع تر سوچ بچار بے حد ضروری امرہے۔ فیصلہ سازی تذبذب حکمت عملی کی خامیوں میںشمار ہوتا ہے۔ سوچ سمجھ کر اور فہم وادراک سے کیا گیا فیصلہ خدائی مدد کا حامل ہوتاہے اور اسکی غلطی کے امکانات اب حد کم ہوتے ہیں۔ فیصلہ سازی میں متعلقہ شعبہ کے ماہرین کی آراء سے مستعفید ہونے سے بہتری کے امکانات روشن تر ہو جاتے ہیں۔ کامیابی کا آٹھواں اصول مستقل مزاجی ہے۔ جو ارتکاز توجہ اور قوت ِارادی کی بنیادی اقدار پر منحصر ہے۔ اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے مستقل مزاجی سے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا ہوتا ہے ۔ ابتدائی ناکامیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے پلاننگ کو بہتر بنایا جاتا ہے ۔ حکمت عملی کو بدل کر آزمایا جاتا ہے۔ ایک راستہ میں رکاوٹ ہو تو دیگر راستوں پر عمل کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ اپنے مقاصد سے ہم آہنگ ماہرین کی آراء لی جاتی ہے۔نئی معلومات ، ایجادات اور دریافتوں پر نظر رکھتے ہوئے استقلال سے اپنے مقاصد کے حصول کیکوششوں کو جاری رکھا جاتا ہے۔ خواہشات کی تکمیل کے لئے مستقل مزاجی سے تمام مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کیا جاتا ہے۔ کامیابی کا نواں اصول ماسٹر مائنڈ گروپ کی طاقت کا استعمال ہے۔یعنی آپ کے پاس آپ کے مقاصد کی تکمیل کے حوالے سے ہم خیال دوستوں، ماہرین اور لوگوں کا ایک گروپ ہو جو مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے سوچتے ہوں اور اپنے علم اور مہارت کی روشنی میں مفید آوردے سکتے ہوں۔ یہ آپ کے مقاصد پر یقین رکھنے والے آپ کے عزیز و اقارب اور دوست بھی ہو سکتے ہیں۔ مثبت سوچ و فکر رکھنے والے ماہرین شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ اہلَ علم جو مفید اور موزوں مشورہ دیتے ہیں۔سوشل نیٹ ورک کے ہم خیال دوست اور ماہرین بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ ان سے مشاورت اور انکے علم سے استفادہ کرنے سے آپکی طاقت و ہمت میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں کمپیوٹر، ای بکس، انٹرنیٹ اور اہلِ علم کی بکس کو بھی ماسٹر مائنڈ گروپ میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ کامیابی کا دسواں اصول جنسی قوت و توانائی کا رُخ اپنے مقاصد کے حصول کی طرف موڑنے کی صلاحیت و اہلیت ہے۔ جنسی جذبات اور دیگر مخلوقات میں طاقتور تحریک کا ذریعہ ہیں۔اور یہ جذبات سب سے طاقتور اور جاندار جذبات ہیں۔ ان کا غلبہ انسانی شخصیت و کردار کو قعرِ مذلت میں دھکیل سکتا ہے۔ انسانی تاریخ میں محبت کے جذبات سے مغلوب ہو کر تاج و تخت کو بھی ٹھکرادینے کی مثالیں موجود ہیں اور اپنی زندگیوں میں نا ممکن کو ممکن بنا دینے کی داستانیں بھی موجود ہیں ۔ شعوری کوشش سے اس قوت سے اپنی خواہشات و مقاصد کے حصول کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ سائنسی تحقیقات ، فنون اور آرٹ میں موجود نادر و نایاب شاہکار ، ادب میں نادر تخلیقات محبت کے جذبات کی مرحونِ منت ہیں۔ کامیابی کا گیارواں اصول لاشعوری ذہن کی سمجھ بوجھ اور اس سے مفید کام لینے کی صلاحیت ہے۔ ہمارا لاشعور کائنات کی لامحدود توانائی سے ہمیشہ رابطہ میں رہتا ہے۔ یہ توانائی اور معلومات کا تبادلہ کرتا رہتا ہے۔ کائنات اور خدا سے ہمیشہ ہمارا رابطہ اسی کے ذریعہ سے ممکن ہوتا ہے۔ یہ ہمارے گرد موجود کائناتی فیلڈ سے علم، ذہانت ، عقل فہم اور صدیوںکے تجربات کے حوالے سے رابطہ رکھتا ہے۔ توانائی کا یہ خزانہ ہماری ہر خواہش کی تکمیل کر سکتا ہے۔ نا ممکن کو ممکن بنا دیتا ہے۔ ہمارا شعور اس سے ہم آہنگ ہو کر حیرتوں کے دروا کر دیتا ہے۔ ’ کُن‘ انسان کی رسائی میں آ جاتا ہے۔ اپنے ، حالات ، ماحول اور رویوں سے انسان نے خود کو محدود اور حدود و قیود کا پابند کر لیا ہے اوراپنے پوٹینشل کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ ورنہ لاشعور کی وسعاتیں کائنات کی لامحدود و توانائی سے جڑی ہوئی ہیں۔ جہاں ناممکن کی رسائی نہیں ہے۔ کامیابی کا بارہواں اصول انسانی دماغ اور ذہن کے صحیح فہم سے منسلک ہے۔ دماغ کے دو حصے ہیں۔ دایاں اور بایاں جو انسانی فعال کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دایاں حصہ تخلیق اور تصور سے وابستہ ہے۔ جبکہ بایاں حصہ تجرباتی او ر تحقیقی حصہ ہے۔ دونوں کا یکساں استعمال ناممکنات کو ممکنات میں بدلتا ہے۔ دماغ جسم اور کائنات کے درمیان رابطہ کا مادی ذریعہ ہے۔جبکہ ذہن دماغ کی فعلیاتی اکائی ہے۔ اور یہ توانائی سے عبارت کائناتی واسطہ ہے۔ اس کی تفصیل کسی اور مقام پر دی جائے گی۔ کامیابی کا تیرہواں اصول انسان کی چھٹی حِس سے وابستہ ہے۔ یہ کائناتی اشارے ہوتے ہیں۔ جو لاشعور کے ذریعے وصول کیے جاتے ہیں۔ یہ کائناتی اور خدائی رہنمائی ہے۔ جو وقتاً فوقتاً انسان کو ملتی ہے۔ جس پر عمل کرنے سے کامیابی ممکن ہو جاتی ہے۔ اورخواہشات اور مقاصد کی تکمیل ہوتی ہے۔مادی، روحانی، ذہنی اور جذباتی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ شخصیت و کردار نکھرتا ہے ار ہر ناکامی میں سے کامیابی کی نوید ملتی ہے۔زندگی کا ہر رنگ خوبصورت نظر آتا ہے۔ہر فرد اپنا لگتا ہے۔دنیا ایک گلوبل ویلج بن جاتی ہے۔ ہر طرح کی برائی دم توڑ دیتی ہے۔اچھائی اور اثبات کا دور دورہ ہوتا ہے۔ رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں۔ معاشرتی اختلاف صرف پہچان کا ذریعہ رہ جاتے ہیں۔ اور ہر فرد کامیابی اور ترقی سے لطف اندوز ہو تا ہے۔ ان اصولوں پر عمل درآمد سے انسان اپنی شخصیت میں مقناطیسی کشش پیدا کر لیتا ہے اور کامیابی لوہے کی طرح اسکی طرف کھنچی چلی جاتی ہے۔ اور ہر انسان ان اصولوں کو بروئے کار لا کر خود کو بدل سکتا ہے اور نا کام سے کامیاب ہونے کا سفر طے کر سکتا ہے۔
150
Notice: compact(): Undefined variable: limits in /home/thainewsi/public_html/wp-includes/class-wp-comment-query.php on line 860
Notice: compact(): Undefined variable: groupby in /home/thainewsi/public_html/wp-includes/class-wp-comment-query.php on line 860
Notice: Undefined variable: aria_req in /home/thainewsi/public_html/wp-content/themes/upaper/comments.php on line 73
Notice: Undefined variable: aria_req in /home/thainewsi/public_html/wp-content/themes/upaper/comments.php on line 79