پیارا وطن پاکستان ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو معرضِ وجود میںوآیا۔ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح تھے اور پہلے وزیراعظم کا حلف لیاقت علی خان نے اُٹھایا۔اور قانون سازی کے لیے اسمبلی نامزد کر دی گئی کہ ملک و قوم ابھی تعمیرِ وطن کے مرحلے میں تھی۔ مہاجرین کے قافلے اپنے وطن میں آرہے تھے انکی بحالی اور اداروں کی تشکیل اس وقت کے رہنماؤں کا سب سے بڑا چیلنج تھا۔ ملکی خزانہ خالی تھا اور بھارت پاکستان کے فنڈز دینے میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا تھا۔ ان حالات میں ملک کو چلانا اور آزادانہ وجود کو برقرار رکھنا ایک بہت بڑا ٹاسک تھا۔ جسے اس وقت کی سول قیادت نے بخوبی پورا کیا۔۱۹۴۸ میں قائداعظم محمد علی جناح وفات پا گئے اور ۱۹۵۱ میں لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا۔ جس سے قیادت کا خلا پیدا ہو گیا اور جاگیردار رہنما اقتدار پر قابض ہو گئے۔ پہلی قانون ساز اسمبلی آئین دینے میں ناکام رہی اور اقتدارکی غلام گردشوں میں انگریز کی تربیت یافتہ سول و ملٹری بیورو کریسی کا عمل دخل بڑھ گیا۔ سول سیاستدان جن کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا ان میں زیادہ تعداد انگریز کی رعایت یافتہ جاگیردار کلاس تھی جبکہ مشرقی پاکستان کے سیاستدانوں کا تعلق مڈل کلاس سے تھا۔ دونوں طرف کے سیاستدانوں کی سوچ اور انداز میں بے پناہ فرق تھا۔ جس کا بھرپور فائدہ بیوروکریسی نے اٹھایا۔ ایک لمبے عرصے تک ملک آئین سے محروم رہا اور عارضی طور پر انگریز کے پرانے آئین و قانون کو ہی نافذ کر دیا گیا۔ اداروں کی تشکیل اور قوم کی تعمیر کا مقصد مختلف سوچ کے سیاستدانوںکی باہمی کشمکش کی نذر ہو گیا اور بیورو کریسی(سول و ملٹری) کو سیاستدانوں کو نا کام، نکما اور نا اہل ثابت کرنے کا موقع مل گیا اور چند سالوں کے اندر ہی سیاست میں سے سول سیاستدانوں کو نکال باہر کیا گیا۔ پہلے اقتدار پر جزوی قبضہ ہوا بعد ازاں مکمل قبضہ کرلیا گیا اور ملک میں جنرل ایوب خان کی قیادت میں پہلا مارشل لاء لگا دیا گیا۔ ملک میں صنعتی ترقی کا دور دورہ شروع ہوا۔نئے ڈیم بنے، نئی صنعتیں لگیں اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوا۔ پہلا آئین نافذ کیا گیا۔ بنیادی جموریت کا تجزیہ کیا گیا۔ اقتدار سے محرومی کے باعث لوگوں میں شدید عدم تحفظ اور بے یقینی کی کیفیت پیدا ہونا شروع ہوئی۔جس نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں اختلافات کو بڑھا وا دیا۔ وسائل کا ذیادہ تر رُخ مغربی پاکستان کی طرف تھا۔ جس سے مشرقی حصہ میں احساس محرومی شدید ہوتا چلا گیا۔ اُس وقت کے بینالاقوامی حالات کا تجزیہ کیا جائے تو بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ پاکستان میں ملٹری اقتدار کس سپر پاور کی ضرورت تھا اور کس طاقت کی ایما پر اس وقت جاری سرد جنگ میں پاکستان مختلف فوجی اتحادوں میں شامل ہوا اور اپنے آپ کو غیر جانبدار رکھنے کی بجائے مغربی اتحادویوں کے کیمپ میں شامل ہو گیا۔ اس سے پاکستان میں امریکی اسلحہ، ڈالر اور امداد آئے اور اس کے ساتھ ساتھفرد واحد کی آمریت کے سبب ملک میں نسلی،لسانی تعصبات کو فروغ ملا اور نسل اور زبان کی بنیاد پر نئی سیاسی جماعتوں کی تشکیل شروع ہو گئی۔کل تک پاکستان بنانے میں شامل سیاستدانوں کو غدار قرار دینے کی روش شروع ہو گئی اور صوبوں کو حقوق مانگنے پر اور اپنے عوام کے لیے وسائل میں حصہ مانگنے پر تشدد اور فوجی ایکشن کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ جس کا نتیجہ نسل اور زبان کی بنیاد پر قومیت کی تشکیل جیسے مسائل پیدا ہو گئے۔ نسلی اور لسانی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کی جدوجہد شروع ہو گئے چونکہ سول اور ملٹری بیوروکریسی کا زیادہ تعلق پنجاب سے تھا۔یوں پنجاب کو ظالم قرار دے کر صوبائی تعصبات کی آندھی چل پڑی۔ اسی ماحول میں مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ اسٹیبلشمنٹ نے سیاستدان کو اس سانحہ کا ذمہ دار قرار دیا اور سیاستدانوں نے سول و ملٹری بیوروکریسی پر ذمہ داری ڈال دی۔الزام تراشی کی اس گرما گرمی میں سچ چھپ گیا اور اصلی وجوہات اور اصل ذمہ داری کا تعین نہ ہو سکا اور ملکی اقتدار پر سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو بٹھا کر اقتدار سول سیاستدانوں کے حوالے کر دیا گیا۔لیکن درپردہ اسٹیبلشمنٹ ہی فیصلہ سازی پر قابض تھی۔ ذوالفقارعلی بھٹو کی وزارت عظمیٰ میں ملک میں متفقہ آئین بنایا گیا۔ تمام ملکی وصوبائی سیاسی جماعتوں نے اس آئین کو بنانے میں حصہ لیا اور ۱۹۷۳ میں اس متفقہ آئین کو اتفاق رائے سے نافذ کر دیا گیا۔ اور ملک جمہوریت کی پٹڑی پر چڑھ گیا اور بظاہر ہر اقتدار سول سیاستدانوں کے پاس تھا۔ ملک میں نام نہاد سوشلزم کے نام پر صنعتی ترقی اور صنعتوں پر شب خون مارا گیا اور صنعتکار ملک سے بھاگنے پر مجبور ہو گئے اور راشن کے حصول کے لیے عوام کو قطاروں میں کھڑا ہونا پڑا۔عوام کے اندر ایک بیداری کی لہر پیدا ہوئی لیکن عوام کی اقتدار میں شمولیت مصنوعی تھی اوراصلی حکمران اب پس پردہ رہ کر اپنا کنٹرول کیے ہوئے تھے۔۱۹۷۷ کے الیکشن میں دھاندلی کا شور ہوا اور اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد نے تحریک کا آغاز کیا۔ جسکا انجام جمہوریت کے اختتام کی شکل میں سامنے آیا اور ملک میں دوسرے طویل مارشل لاء کا آغاز ہو گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے سیاستدانوں کو نا اہل اور نا کارہ قرار دے کر اقتدار کے ایوانوں سے رخصت کر دیا۔ اور فرد واحد کی آمریت کے اس دور میں افغان جنگ لڑی گئی اور پاکستان روس کے خلاف گرم جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ کے طور پر شامل ہوا۔ افغان مہاجرین کا سیلاب پاکستان میں داخل ہو گئے۔ پاکستان پر ایک بار پھر امریکی ڈالروں، اسلحہ اور امداد کی بارش شروع ہو گئی۔ افغان جنگ کے نتیجہ میں پاکستان میں اسلحہ اور ہیروئن کی فراوانی ہو گئی۔ معاشرتی عدم توازن شروع ہو گیا۔ افغان مہاجرین پاکستانی سماج میں اپنی روایات سمیت شامل ہو گئے۔ فیصلہ سازی کا اختیار فرد واحد کے ہاتھ میں ہونے کے باعث امریکہ کو اپنی بات منوانے میں کوئی مشکل نہ تھی اور عوام کے مسائل میں اضافہ ہوتا رہا۔ حکمران طبقہ غیر ملکی ڈالروں سے اور منشیات کی تجارت سے جیبیں بھرتا رہا۔ اس دفعہ کا مارشل لاء بھی کس طاقت کی ایما پر نافذ ہوا اور کس نے بھر پور فائدہ اٹھایا۔یہ سب تاریخ کا حصّہ ہے۔اس مارشل لائی آمریت کے بطن میں برآمد ہونے والی جمہوریت میں کچھ صنعتکار خاندان سیاست کے میدان خارزار میں وارد ہوئے اور سیاست حکومت کو ایک نیا انداز اور سوچ ملی۔عوام میں اپنے مسائل اوروسائل کا شعور بڑھا۔ ۱۹۸۵ میں ضیائی آمریت کے تحت ہونے والے غیر جماعتی الیکشن سے کچھ نئے خاندان اور لوگ سیاست میں داخل ہوئے پھر ۱۹۸۸ میں ہونے والے الیکشن میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت بنی۔ سیاستدانوں کی باہمی کشمکش اور اقتدار کے حصول کے لیے جاری ریشہ دواپنوں سے مرکزی حکومت کا کرپشن کے الزام کے تحت خاتمہ ہوا اور نئے الیکشن سے آئی جے آئی اتحاد کی حکومت آگئی۔ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ کت باعث آئی جے آئی کی حکومت کے خاتمہ کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت دوبارہ آئی ڈھائی سال کے بعد حکومت کی بساط لپیٹ دی گئی اور نئے الیکشن کے بعد مسلم لیگ کی حکومت قائم ہوئی اور نواز شریف دوسری بار وزیراعظم بن گئے لیکن ۱۹۹۹ میں اسٹیبلشمنٹ اور نواز حکومت کے درمیان اختلاف کے باعث ملکی تاریخ کا تیسرا مارشل لاء لگا دیا گیا اور جنرل پرویز مشرف نے عنانِ حکومت پر قبضہ کر لیا۔جنرل پرویز مشرف کی آمریت میں امریکہ میں دہشت گرد حملے ہوئے اور القاعدہ کا نام بین الاقوامی سیاست میں گونجنے لگا۔جس کے خاتمے کے لیے امریکہ نے اس کے افغانستان میں واقع بیس کیمپ پر حملہ کر دیا اور پاکستان کی فردِواحد کی حکومت نے ایک ٹیلی فون آنے پر ہتھیار ڈال دیے اور صرف اپنے اقتدار کے لیے امریکہ کو خطے میں کھلی چھوٹ دے دی گئی اورآمر اور اسکے ساتھیوں نے دونوں ہاتھوں سے ڈالر لوٹے اور قوم کو سستے میں بیچ دیا گیا۔ایک بار پھر تاریخ شاہد ہے کہ نیا مارشل لا کیوں لگا اور اسکا فائدہ کس طاقت نے اٹھایا۔ایک بار پھر عوام اور عوامی نمائندوں کو سیاست و حکومت سے بے دخل کر دیا گیا اور اپنی مرضی کی اقتدار پارٹیاں بنائی گئیں اور عوامی نمائندگی کا کھلا تماشہ کیا گیا۔ ماضی کے اس تجزیہ کے بعد اگر حال کا تجزیہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی سیاست و اقتدار پر قابض اصلی حکمران جن کو کبھی خلائی مخلوق کا نام دیا گیا کبھی فرشتے کیا گیا۔ کبھی مقتدر حلقوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور کبھی نادیدہ قوتوں کا نام دیا جاتا ہے۔ان سب باتوں کے باوجود سویلین سیاستدانوں کی اپنی کمزوری بھی عیاں ہے کہ گر اس روٹ لیول پر کسی سیاسی جماعت اور سیاستدان کا عوام سے رابطہ و تعلق نہیں ہے۔کسی سیاسی جماعت میں اندرونی الیکشن کی کوئی روایت موجود نہیں ہے۔سیاسی پارٹیوں اور مذہبی جماعتوں کی قیادت پر مختلف خاندان اور افراد قابض ہیں۔اور انکے احکام حرفِ آخر سمجھے جاتے ہیں اور ان کے اندر یہ خیال جڑ پکڑ چکا ہے کہ وہ لوگ پیدا ہی قیادت اور اقتدار کے لیے ہوئے ہیں۔ اقتدار کے حصول کے لیے ہر طرح کا ہتھکنڈہ اور ہر طرح کے اتحاد کے لیے ہمیشہ راضی رہتے ہیں۔اسٹیبلشمنٹ بھی ان کی اس کمزوری سے بھر پور فائدہ اٹھاتی ہے۔عوام اس سارے عمل اور اقتدار سے ہمیشہ بیگانہ اور دور رکھے گئے ہیں۔عوام کو ہمیشہ بنیادی ضرورتوں کے جال میں پھنسا کر رکھا جاتا ہے۔ تا کہ لوگ اپنے حقوق کو نہ پہچان سکیں اور تقسیم۔ نا اتفاقی اور بلا ضرورت کے تنازعات میں الجھ رہیں۔اور سیاست میں ہمیشہ نان ایشوز ہی زیرِ بحث رہیں اور مفروضہ مسائل کو حل کرنے کی بجائے چلتی رہیں۔ اور حقیقی اور بنیادی مسائل کو حل کرنے کی طرف دھیان ہی نہ آئے۔ ان حالات میں عوام کو خود اپنے مسائل کا ادراک کرنا ہوگا۔ اپنے آپ کو زبورِ تعلیم سے آراستہ کرنا ہی وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔اپنے اخلاقی معیاروں کا ازسر نو جائزہ لینا ہوگا۔اپنی مذہبی اور مسلکی بناوٹ کو سمجھ کر رواداری کو فروغ دینا ہوگا۔ شخصی اور ذاتی اختلافات سماجی حسن ہے۔ ان متضاد طبیعتوں سے تنوع اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ان تمام سماجی جہتوں کو سمجھ کر خود کو بہترین شہری بنانا ہوگا۔ ہم سب کے مسائل بلا تفریق نسل، زبان،مذہب اور مسلک یکساں ہیں۔ ہمیں اپنے طبقہ کا گہرا شعور حاصل کرنا ہو گا۔ طبقاتی تقسیم،معاشی تفاوت کو سمجھنا ہو گا۔ اپنی مشترکہ جدوجہد اور باہمی اتفاق کے حصول کے لیے اپنے مقابل طبقات کا جائزہ لینا ہو گا۔ اپنے حقیقی دوست اور دشمن کی پہچان کر کے اپنا لائحہ عمل مرتب کرنا ہو گا۔اور اپنے خلاف ہونے والی تمام طبقاتی سازشوں کو سمجھ کر عوامی اداروں کی تشکیل کرنا ہوگی۔ تبھی ہمارے بچوں کا مستقبل محفوظ ہو پائے گا اور ہم ایک قوم بننے کے مرحلے میں داخل ہو جائیں گے۔ تمام صوبوں میں تمام نسل اور زبان کے لوگ یکساں مسائل کا شکار ہیں۔سب کو ایک طرح کی ہی میٹھی گولی کہ زہر بھری ہے دی جا رہی ہے۔ کہیں سندھ کارڈ، کہیں بلوچی کارڈ اور کہیں پشتو کارڈ اور کہیں پنجاب کارڈ استعمال ہوتا ہے اور عیش اور حکومت ہمیشہ ایک مخصوص طبقہ ہی کر رہا ہوتا ہے اور عوام ہمیشہ ہر نئے آنے والے سے امید باندھ لیتے ہیں اور خود اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوتے۔خود کو طاقتور نہیں کرتے اپنی شخصیت کی نشونما نہیں کرتے۔ ہمارے تمام مسائل کا حل ہمارے اپنے اندر مثبت تبدیلی لانے میںہے۔اپنی شخصی اور ذاتی نشونما میں ہے۔خود کو اور اپنے بچوں کو مثبت اخلاق اور مثبت انداز فکر سے آراستہ کرنے میں ہے۔ تبدیلی ہمارے اندر سے باہر کی سمت آئے گی۔خود کو تبدیل کر لیں گے تو سماج تبدیل ہو جائے گا۔ ملک و قوم تبدیل ہو جائے گی۔ اپنی قیادت خود اپنے ہاتھ میں لینا ہو گی۔ اپنی قسمت اور مقدر کا فیصلہ ہمیں خود کرنا ہو گا۔ادھار کا مقدر ہماری تقدیر نہیں بدل سکتا۔خدا بھی ان کی مدد نہیں کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔
163
Notice: compact(): Undefined variable: limits in /home/thainewsi/public_html/wp-includes/class-wp-comment-query.php on line 860
Notice: compact(): Undefined variable: groupby in /home/thainewsi/public_html/wp-includes/class-wp-comment-query.php on line 860
Notice: Undefined variable: aria_req in /home/thainewsi/public_html/wp-content/themes/upaper/comments.php on line 73
Notice: Undefined variable: aria_req in /home/thainewsi/public_html/wp-content/themes/upaper/comments.php on line 79